EN हिंदी
یہ جو چپکے سے آئے بیٹھے ہیں | شیح شیری
ye jo chupke se aae baiThe hain

غزل

یہ جو چپکے سے آئے بیٹھے ہیں

میر مہدی مجروح

;

یہ جو چپکے سے آئے بیٹھے ہیں
لاکھ فتنے اٹھائے بیٹھے ہیں

وہ نہیں ہیں تو درد کو ان کے
سینے سے ہم لگائے بیٹھے ہیں

یہ بھی کچھ جی میں آ گئی ہوگی
کیا وہ میرے بٹھائے بیٹھے ہیں

تذکرہ وصل کا نہیں خالی
وہ بھی کچھ لطف پائے بیٹھے ہیں

مجھ کو مارا ہے پر خجالت سے
وہ بھی گردن جھکائے بیٹھے ہیں

رنگ جمتا ہے یاں نہ آنے کا
یعنی مہندی لگائے بیٹھے ہیں

مجھ کو محفل میں دیکھ کر بولے
آپ یاں کیوں کہ آئے بیٹھے ہیں

خیر ہو ہیں بگاڑ کے آثار
کچھ وہ منہ کو بنائے بیٹھے ہیں

غم ہمیں کھا رہا ہے تو کیا غم
ہم بھی تو غم کو کھائے بیٹھے ہیں

زد میں گر ہے عدو تو ہو وہ تو
گھات مجھ پر لگائے بیٹھے ہیں

کھوئے جانے کا اپنے دھیان نہیں
کچھ تو ایسا ہی پائے بیٹھے ہیں

شرم سے ہیں وہ لاکھ پردے میں
گو مرے پاس آئے بیٹھے ہیں

شمع ساں گو گھلے ہی جاتے ہیں
اس سے پر لو لگائے بیٹھے ہیں

اس گلی میں بسان نقش قدم
ہم بھی پاؤں جمائے بیٹھے ہیں

ہو نہ اے شمع حسن پر نازاں
وہ بھی محفل میں آئے بیٹھے ہیں

شوخیاں خود ہیں پردہ در ان کی
کیوں وہ منہ کو چھپائے بیٹھے ہیں

فرد باطل سمجھ کے دنیا کو
نقش ہستی مٹائے بیٹھے ہیں

کیا ہے اس خوش خرام کی آمد
فتنے جو جائے جائے بیٹھے ہیں

طور جس آگ نے جلایا تھا
ہم وہ دل میں چھپائے بیٹھے ہیں

چشمکیں غیر سے دکھا دیں گے
ہم بھی آنکھیں لڑائے بیٹھے ہیں

کل تقدس مآب مسجد تھے
آج رندوں میں آئے بیٹھے ہیں

لاابالی خرام ہے مجروحؔ
وضع کیسی بنائے بیٹھے ہیں