EN हिंदी
یہ گرم ریت یہ صحرا نبھا کے چلنا ہے | شیح شیری
ye garm ret ye sahra nibha ke chalna hai

غزل

یہ گرم ریت یہ صحرا نبھا کے چلنا ہے

احمد کمال پروازی

;

یہ گرم ریت یہ صحرا نبھا کے چلنا ہے
سفر طویل ہے پانی بچا کے چلنا ہے

بس اس خیال سے گھبرا کے چھٹ گئے سب لوگ
یہ شرط تھی کہ قطاریں بنا کے چلنا ہے

وہ آئے اور زمیں روند کر چلے بھی گئے
ہمیں بھی اپنا خسارہ بھلا کے چلنا ہے

کچھ ایسے فرض بھی ذمے ہیں ذمہ داروں پر
جنہیں ہمارے دلوں کو دکھا کے چلنا ہے

شناسا ذہنوں پہ طعنے اثر نہیں کرتے
تو اجنبی ہے تجھے زہر کھا کے چلنا ہے

وہ دیدہ ور ہو کہ شاعر کہ مسخرہ کوئی
یہاں سبھی کو تماشہ دکھا کے چلنا ہے

وہ اپنے حسن کی خیرات دینے والے ہیں
تمام جسم کو کاسہ بنا کے چلنا ہے