EN हिंदी
یار نے ہم سے بے ادائی کی | شیح شیری
yar ne humse be-adai ki

غزل

یار نے ہم سے بے ادائی کی

میر تقی میر

;

یار نے ہم سے بے ادائی کی
وصل کی رات میں لڑائی کی

بال و پر بھی گئے بہار کے ساتھ
اب توقع نہیں رہائی کی

کلفت رنج عشق کم نہ ہوئی
میں دوا کی بہت شفائی کی

طرفہ رفتار کے ہیں رفتہ سب
دھوم ہے اس کی رہ گرائی کی

خندۂ یار سے طرف ہو کر
برق نے اپنی جگ ہنسائی کی

کچھ مروت نہ تھی ان آنکھوں میں
دیکھ کر کیا یہ آشنائی کی

وصل کے دن کو کار جاں نہ کھنچا
شب نہ آخر ہوئی جدائی کی

منہ لگایا نہ دختر رز کو
میں جوانی میں پارسائی کی

جور اس سنگ دل کے سب نہ کھنچے
عمر نے سخت بے وفائی کی

کوہ کن کیا پہاڑ توڑے گا
عشق نے زور آزمائی کی

چپکے اس کی گلی میں پھرتے رہے
دیر واں ہم نے بے نوائی کی

اک نگہ میں ہزار جی مارے
ساحری کی کہ دل ربائی کی

نسبت اس آستاں سے کچھ نہ ہوئی
برسوں تک ہم نے جبہہ سائی کی

میرؔ کی بندگی میں جاں بازی
سیر سی ہو گئی خدائی کی