EN हिंदी
یاں ہوش سے بے زار ہوا بھی نہیں جاتا | شیح شیری
yan hosh se be-zar hua bhi nahin jata

غزل

یاں ہوش سے بے زار ہوا بھی نہیں جاتا

فانی بدایونی

;

یاں ہوش سے بے زار ہوا بھی نہیں جاتا
اس بزم میں ہشیار ہوا بھی نہیں جاتا

کہتے ہو کہ ہم وعدۂ پرسش نہیں کرتے
یہ سن کے تو بیمار ہوا بھی نہیں جاتا

دشوارئ انکار سے طالب نہیں ڈرتے
یوں سہل تو اقرار ہوا بھی نہیں جاتا

آتے ہیں عیادت کو تو کرتے ہیں نصیحت
احباب سے غم خوار ہوا بھی نہیں جاتا

جاتے ہوئے کھاتے ہو مری جان کی قسمیں
اب جان سے بے زار ہوا بھی نہیں جاتا

غم کیا ہے اگر منزل جاناں ہے بہت دور
کیا خاک رہ یار ہوا بھی نہیں جاتا

دیکھا نہ گیا اس سے تڑپتے ہوئے دل کو
ظالم سے جفاکار ہوا بھی نہیں جاتا

یہ طرفہ ستم ہے کہ ستم بھی ہے کرم بھی
اب خوگر آزار ہوا بھی نہیں جاتا