EN हिंदी
وہ آنکھیں زہر ایسا بو گئی ہیں | شیح شیری
wo aankhen zahr aisa bo gai hain

غزل

وہ آنکھیں زہر ایسا بو گئی ہیں

جالب نعمانی

;

وہ آنکھیں زہر ایسا بو گئی ہیں
زمینیں زرد صحرا ہو گئی ہیں

اندھیرے گر رہے ہیں آسماں سے
فضا کی وسعتیں بھی سو گئی ہیں

ہمیشہ ایک جا پاتا ہوں خود کو
حدیں منزل کی شاید کھو گئی ہیں

چمک کیا ریت کی ذروں میں ہوگی
جو سونا تھا وہ موجیں دھو گئی ہیں

پگھلتے دیکھ کے سورج کی گرمی
ابھی معصوم کرنیں رو گئی ہیں