EN हिंदी
شب کی بیداریاں نہیں اچھی | شیح شیری
shab ki bedariyan nahin achchhi

غزل

شب کی بیداریاں نہیں اچھی

عبد الحمید عدم

;

شب کی بیداریاں نہیں اچھی
اتنی مے خواریاں نہیں اچھی

وہ کہیں کبریا نہ بن جائیں
ناز برداریاں نہیں اچھی

ہڈیاں گالنے کے گر سیکھوں
سہل انگاریاں نہیں اچھی

کچھ رواداریوں کی مشق بھی کر
صرف اداکاریاں نہیں اچھی

ہاتھ سے کھو نہ بیٹھنا اس کو
اتنی خودداریاں نہیں اچھی

اے غفور الرحیم سچ فرما
کیا خطا کاریاں نہیں اچھی