EN हिंदी
سر کو تن سے مرے جدا کیجے | شیح شیری
sar ko tan se mere juda kije

غزل

سر کو تن سے مرے جدا کیجے

میر مہدی مجروح

;

سر کو تن سے مرے جدا کیجے
یہ بھی جھگڑا ہے فیصلہ کیجے

مجھ پہ تہمت صنم پرستی کی
شیخ صاحب خدا خدا کیجے

لعل کو اس کے لب سے کیا نسبت
یہ بھی اک بات ہے سنا کیجے

لو وہ آتے ہیں جلد حضرت دل
فکر صبر گریز پا کیجے

ہم غنیمت اسی کو سمجھیں گے
لو وفا وعدۂ جفا کیجے

اپنا کینہ بنوں کہ یاد رقیب
کس طرح اس کے دل میں جا کیجے

یاں تو مطلب ہی کچھ نہیں رکھتے
جو کسی سے کہیں روا کیجے

مدعی گھات ہی میں رہتے ہیں
کیوں کہ واں عرض مدعا کیجے

دکھ جو مجروحؔ نے سہے غم سے
اس کا کیا شرح ماجرا کیجے

مر گیا وہ پہ یاد آتا ہے
اس کا کہنا کہ آہ کیا کیجے

سخت مشکل ہے یار کا کھلنا
یہ گرہ کس طرح سے وا کیجے

صبر کے فائدے بہت ہیں ولے
دل ہی بس میں نہ ہو تو کیا کیجے

غیر کی پاسباں کی درباں کی
کس کی جا جا کے التجا کیجے

اس کی وہ آنکھ اب نہیں مجروحؔ
جلد کچھ اپنا سوجھتا کیجے