EN हिंदी
سر صحرا مسافر کو ستارہ یاد رہتا ہے | شیح شیری
sar-e-sahra musafir ko sitara yaad rahta hai

غزل

سر صحرا مسافر کو ستارہ یاد رہتا ہے

عدیم ہاشمی

;

سر صحرا مسافر کو ستارہ یاد رہتا ہے
میں چلتا ہوں مجھے چہرہ تمہارا یاد رہتا ہے

تمہارا ظرف ہے تم کو محبت بھول جاتی ہے
ہمیں تو جس نے ہنس کر بھی پکارا یاد رہتا ہے

محبت میں جو ڈوبا ہو اسے ساحل سے کیا لینا
کسے اس بحر میں جا کر کنارہ یاد رہتا ہے

بہت لہروں کو پکڑا ڈوبنے والے کے ہاتھوں نے
یہی بس ایک دریا کا نظارہ یاد رہتا ہے

صدائیں ایک سی یکسانیت میں ڈوب جاتی ہیں
ذرا سا مختلف جس نے پکارا یاد رہتا ہے

میں کس تیزی سے زندہ ہوں میں یہ تو بھول جاتا ہوں
نہیں آنا ہے دنیا میں دوبارہ یاد رہتا ہے