EN हिंदी
سنسار کی ہر شے کا اتنا ہی فسانہ ہے | شیح شیری
sansar ki har shai ka itna hi fasana hai

غزل

سنسار کی ہر شے کا اتنا ہی فسانہ ہے

ساحر لدھیانوی

;

سنسار کی ہر شے کا اتنا ہی فسانہ ہے
اک دھند سے آنا ہے اک دھند میں جانا ہے

یہ راہ کہاں سے ہے یہ راہ کہاں تک ہے
یہ راز کوئی راہی سمجھا ہے نہ جانا ہے

اک پل کی پلک پر ہے ٹھہری ہوئی یہ دنیا
اک پل کے جھپکنے تک ہر کھیل سہانا ہے

کیا جانے کوئی کس پر کس موڑ پر کیا بیتے
اس راہ میں اے راہی ہر موڑ بہانا ہے

ہم لوگ کھلونا ہیں اک ایسے کھلاڑی کا
جس کو ابھی صدیوں تک یہ کھیل رچانا ہے