EN हिंदी
سفر پہ آج وہی کشتیاں نکلتی ہیں | شیح شیری
safar pe aaj wahi kashtiyan nikalti hain

غزل

سفر پہ آج وہی کشتیاں نکلتی ہیں

وسیم بریلوی

;

سفر پہ آج وہی کشتیاں نکلتی ہیں
جنہیں خبر ہے ہوائیں بھی تیز چلتی ہیں

مری حیات سے شاید وہ موڑ چھوٹ گئے
بغیر سمتوں کے راہیں جہاں نکلتی ہیں

ہمارے بارے میں لکھنا تو بس یہی لکھنا
کہاں کی شمعیں ہیں کن محفلوں میں جلتی ہیں

بہت قریب ہوئے جا رہے ہو سوچو تو
کہ اتنی قربتیں جسموں سے کب سنبھلتی ہیں

وسیمؔ آؤ ان آنکھوں کو غور سے دیکھو
یہی تو ہیں جو مرے فیصلے بدلتی ہیں