ربط ہر بزم سے ٹوٹے تری محفل کے سوا
رنجشیں سب کی گوارا ہیں ترے دل کے سوا
ایسے پہلو میں سما جاؤ کہ جیسے دل ہو
چین ملتا ہے کہاں موج کو ساحل کے سوا
چیخ ٹکرا کے پہاڑوں سے پلٹ آتی ہے
کون سہتا ہے بھلا وار مقابل کے سوا
خشک پتوں سے چھڑا لیتی ہیں شاخیں دامن
کس نے یادوں سے نبھائی ہے یہاں دل کے سوا
ایک بچھڑے ہوئے سائے کے تعاقب میں بشرؔ
سبھی راہوں پہ گئے ہم رہ منزل کے سوا
غزل
ربط ہر بزم سے ٹوٹے تری محفل کے سوا
بشر نواز