EN हिंदी
راستے سکھاتے ہیں کس سے کیا الگ رکھنا | شیح شیری
raste sikhate hain kis se kya alag rakhna

غزل

راستے سکھاتے ہیں کس سے کیا الگ رکھنا

عادل رضا منصوری

;

راستے سکھاتے ہیں کس سے کیا الگ رکھنا
منزلیں الگ رکھنا قافلہ الگ رکھنا

بعد ایک مدت کے لوٹ کر وہ آیا ہے
آج تو کہانی سے حادثہ الگ رکھنا

جس سے ہم نے سیکھا تھا ساتھ ساتھ چلنا ہے
اب وہی بتاتا ہے نقش پا الگ رکھنا

کوزہ گر نے جانے کیوں آدمی بنایا ہے
اس کو سب کھلونوں سے تم ذرا الگ رکھنا

لوٹ کر تو آئے ہو تجربوں کی صورت ہے
پر مری کہانی سے فلسفہ الگ رکھنا

تم تو خوب واقف ہو اب تمہی بتاؤ نا
کس میں کیا ملانا ہے کس سے کیا الگ رکھنا

خواہشوں کا خمیازہ خواب کیوں بھریں عادلؔ
آج میری آنکھوں سے رت جگا الگ رکھنا