EN हिंदी
قربتوں سے کب تلک اپنے کو بہلائیں گے ہم | شیح شیری
qurbaton se kab talak apne ko bahlaenge hum

غزل

قربتوں سے کب تلک اپنے کو بہلائیں گے ہم

زہرا نگاہ

;

قربتوں سے کب تلک اپنے کو بہلائیں گے ہم
ڈوریاں مضبوط ہوں گی چھٹتے جائیں گے ہم

تیرا رخ سائے کی جانب میری آنکھیں سوئے مہر
دیکھنا ہے کس جگہ کس وقت مل پائیں گے ہم

گھر کے سارے پھول ہنگاموں کی رونق ہو گئے
خالی گلدانوں سے باتیں کرکے سو جائیں گے ہم

ادھ کھلی تکیے پہ ہوگی علم و حکمت کی کتاب
وسوسوں وہموں کے طوفانوں میں گھر جائیں گے ہم

اس نے آہستہ سے زہراؔ کہہ دیا دل کھل اٹھا
آج سے اس نام کی خوشبو میں بس جائیں گے ہم