EN हिंदी
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو | شیح شیری
qais jangal mein akela hai mujhe jaane do

غزل

قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو

میاں داد خاں سیاح

;

قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو

لال ڈورے تری آنکھوں میں جو دیکھے تو کھلا
مئے گل رنگ سے لبریز ہیں پیمانے دو

ٹھہرو تیوری کو چڑھائے ہوئے جاتے ہو کدھر
دل کا صدقہ تو ابھی سر سے اتر جانے دو

منع کیوں کرتے ہو عشق بت شیریں لب سے
کیا مزے کا ہے یہ غم دوستو غم کھانے دو

ہم بھی منزل پہ پہنچ جائیں گے مرتے کھپتے
قافلہ یاروں کا جاتا ہے اگر جانے دو

شمع و پروانہ نہ محفل میں ہوں باہم زنہار
شمع رو نے مجھے بھیجے ہیں یہ پروانے دو

ایک عالم نظر آئے گا گرفتار تمہیں
اپنے گیسوئے رسا تا بہ کمر جانے دو

سخت جانی سے میں عاری ہوں نہایت اے تلخؔ
پڑ گئے ہیں تری شمشیر میں دندانے دو

حشر میں پیش خدا فیصلہ اس کا ہوگا
زندگی میں مجھے اس گبر کو ترسانے دو

گر محبت ہے تو وہ مجھ سے پھرے گا نہ کبھی
غم نہیں ہے مجھے غماز کو بھڑکانے دو

جوش بارش ہے ابھی تھمتے ہو کیا اے اشکو
دامن کوہ و بیاباں کو تو بھر جانے دو

واعظوں کو نہ کرے منع نصیحت سے کوئی
میں نہ سمجھوں گا کسی طرح سے سمجھانے دو

رنج دیتا ہے جو وہ پاس نہ جاؤ سیاحؔ
مانو کہنے کو مرے دور کرو جانے دو