EN हिंदी
پھولوں سے بدن ان کے کانٹے ہیں زبانوں میں | شیح شیری
phulon se badan un ke kanTe hain zabanon mein

غزل

پھولوں سے بدن ان کے کانٹے ہیں زبانوں میں

ساغرؔ اعظمی

;

پھولوں سے بدن ان کے کانٹے ہیں زبانوں میں
شیشے کے ہیں دروازے پتھر کی دکانوں میں

کشمیر کی وادی میں بے پردہ جو نکلے ہو
کیا آگ لگاؤ گے برفیلی چٹانوں میں

بس ایک ہی ٹھوکر سے گر جائیں گی دیواریں
آہستہ ذرا چلیے شیشے کے مکانوں میں

اللہ رے مجبوری بکنے کے لیے اب بھی
سامان تبسم ہے اشکوں کی دکانوں میں

آنے کو ہے پھر شاید طوفان نیا کوئی
سہمے ہوئے بیٹھے ہیں لوگ اپنے مکانوں میں

شہرت کی فضاؤں میں اتنا نہ اڑو ساغرؔ
پرواز نہ کھو جائے ان اونچی اڑانوں میں