EN हिंदी
پھر جی اٹھے ہیں جس سے وہ امکان تم نہیں | شیح شیری
phir ji uThe hain jis se wo imkan tum nahin

غزل

پھر جی اٹھے ہیں جس سے وہ امکان تم نہیں

سلیم کوثر

;

پھر جی اٹھے ہیں جس سے وہ امکان تم نہیں
اب جو بھی کر رہا ہے یہ احسان تم نہیں

مجھ میں بدل رہا ہے جو اک عالم خیال
اس لمحۂ جنوں کے نگہبان تم نہیں

بجھتے ہوئے چراغ کی لو جس نے تیز کی
وہ اور ہی ہوا ہے مری جان تم نہیں

پھر یوں ہوا کہ جیسے گرہ کھل گئی کوئی
مشکل تو بس یہی تھی کہ آسان تم نہیں

تم نے سنی نہیں ہے صدائے شکست دل
ہم جھیلتے رہے ہیں یہ نقصان تم نہیں

تم سے تو بس نباہ کی صورت نکل پڑی
جس سے ہوئے تھے وعدہ و پیمان تم نہیں

خوش فہمیوں کی بات الگ ہے مگر یہ گھر
جس کے لیے سجا ہے وہ مہمان تم نہیں

یہ عالم ظہور ہے ہجرت زدہ سلیمؔ
ہم بھی دکھی ہیں صرف پریشان تم نہیں