EN हिंदी
مجھے زمان و مکاں کی حدود میں نہ رکھ | شیح شیری
mujhe zaman-o-makan ki hudud mein na rakh

غزل

مجھے زمان و مکاں کی حدود میں نہ رکھ

ذوالفقار نقوی

;

مجھے زمان و مکاں کی حدود میں نہ رکھ
صدا و صوت کی اندھی قیود میں نہ رکھ

میں تیرے حرف دعا سے بھی ماورا ہوں میاں
مجھے تو اپنے سلام و درود میں نہ رکھ

کلیم وقت کے در کو جبیں ترستی ہے
امیر شہر کے بیکل سجود میں نہ رکھ

نظام قیصر و کسری کی میں روانی ہوں
وجوب عین ہوں صاحب شہود میں نہ رکھ

بچھا یقیں کا مصلیٰ درون ہستی میں
نیاز و راز کے قصے نمود میں نہ رکھ

پس وجود جہاں میری خاک ہی تو ہے
رموز ہستیٔ دوراں ورود میں نہ رکھ