مجھے کہاں مرے اندر سے وہ نکالے گا
پرائی آگ میں کوئی نہ ہاتھ ڈالے گا
وہ آدمی بھی کسی روز اپنی خلوت میں
مجھے نہ پا کے کوئی آئینہ نکالے گا
وہ سبز ڈال کا پنچھی میں ایک خشک درخت
ذرا سی دیر میں وہ اپنا راستہ لے گا
میں وہ چراغ ہوں جس کی ضیا نہ پھیلے گی
مرے مزاج کا سورج مجھے چھپا لے گا
کریدتا ہے بہت راکھ میرے ماضی کی
میں چوک جاؤں تو وہ انگلیاں جلا لے گا
وہ اک تھکا ہوا راہی میں ایک بند سرائے
پہنچ بھی جائے گا مجھ تک تو مجھ سے کیا لے گا
غزل
مجھے کہاں مرے اندر سے وہ نکالے گا
عزیز بانو داراب وفا