مرے خدا مجھے وہ تاب نے نوائی دے
میں چپ رہوں بھی تو نغمہ مرا سنائی دے
گدائے کوئے سخن اور تجھ سے کیا مانگے
یہی کہ مملکت شعر کی خدائی دے
نگاہ دہر میں اہل کمال ہم بھی ہوں
جو لکھ رہے ہیں وہ دنیا اگر دکھائی دے
چھلک نہ جاؤں کہیں میں وجود سے اپنے
ہنر دیا ہے تو پھر ظرف کبریائی دے
مجھے کمال سخن سے نوازنے والے
سماعتوں کو بھی اب ذوق آشنائی دے
نمو پزیر ہے یہ شعلۂ نوا تو اسے
ہر آنے والے زمانے کی پیشوائی دے
کوئی کرے تو کہاں تک کرے مسیحائی
کہ ایک زخم بھرے دوسرا دہائی دے
میں ایک سے کسی موسم میں رہ نہیں سکتا
کبھی وصال کبھی ہجر سے رہائی دے
جو ایک خواب کا نشہ ہو کم تو آنکھوں کو
ہزار خواب دے اور جرأت رسائی دے
غزل
مرے خدا مجھے وہ تاب نے نوائی دے
عبید اللہ علیم