EN हिंदी
اے دوست کوئی مجھ سا رسوا نہ ہوا ہوگا | شیح شیری
ai dost koi mujh sa ruswa na hua hoga

غزل

اے دوست کوئی مجھ سا رسوا نہ ہوا ہوگا

میر تقی میر

;

اے دوست کوئی مجھ سا رسوا نہ ہوا ہوگا
دشمن کے بھی دشمن پر ایسا نہ ہوا ہوگا

اب اشک حنائی سے جو تر نہ کرے مژگاں
وہ تجھ کف رنگیں کا مارا نہ ہوا ہوگا

ٹک گور غریباں کی کر سیر کہ دنیا میں
ان ظلم رسیدوں پر کیا کیا نہ ہوا ہوگا

بے نالہ و بے زاری بے خستگی و خواری
امروز کبھی اپنا فردا نہ ہوا ہوگا

ہے قاعدہ کلی یہ کوئے محبت میں
دل غم جو ہوا ہوگا پیدا نہ ہوا ہوگا

اس کہنہ خرابے میں آبادی نہ کر منعم
یک شہر نہیں یاں جو صحرا نہ ہوا ہوگا

آنکھوں سے تری ہم کو ہے چشم کہ اب ہووے
جو فتنہ کہ دنیا میں برپا نہ ہوا ہوگا

جز مرتبۂ کل کو حاصل کرے ہے آخر
یک قطرہ نہ دیکھا جو دریا نہ ہوا ہوگا

صد نشتر مژگاں کے لگنے سے نہ نکلا خوں
آگے تجھے میرؔ ایسا سودا نہ ہوا ہوگا