EN हिंदी
اب ضعف سے ڈھہتا ہے بیتابی شتابی کی | شیح شیری
ab zoaf se Dhahta hai betabi shitabi ki

غزل

اب ضعف سے ڈھہتا ہے بیتابی شتابی کی

میر تقی میر

;

اب ضعف سے ڈھہتا ہے بیتابی شتابی کی
اس دل کے تڑپنے نے کیا خانہ خرابی کی

ان درس گہوں میں وہ آیا نہ نظر ہم کو
کیا نقل کروں خوبی اس چہرہ کتابی کی

بھنتے ہیں دل اک جانب سکتے ہیں جگر یکسو
ہے مجلس مشتاقاں دکان کبابی کی

تلخ اس لب میگوں سے سب سنتے ہیں کس خاطر
تہہ دار نہیں ہوتی گفتار شرابی کی

یک بو کشی بلبل ہے موجب صد مستی
پر زور ہے کیا دارو غنچے کی گلابی کی

اب سوز محبت سے سارے جو پھپھولے ہیں
ہے شکل مرے دل کی سب شیشہ حبابی کی

نش مردہ مرے منہ سے یاں حرف نہیں نکلا
جو بات کہ میں نے کی سو میرؔ حسابی کی