EN हिंदी
اگر راہ میں اس کی رکھا ہے گام | شیح شیری
agar rah mein uski rakha hai gam

غزل

اگر راہ میں اس کی رکھا ہے گام

میر تقی میر

;

اگر راہ میں اس کی رکھا ہے گام
گئے گزرے خضر علیہ السلام

دہن یار کا دیکھ چپ لگ گئی
سخن یاں ہوا ختم حاصل کلام

مجھے دیکھ منہ پر پریشاں کی زلف
غرض یہ کہ جا تو ہوئی اب تو شام

سر شام سے رہتی ہیں کاہشیں
ہمیں شوق اس ماہ کا ہے تمام

قیامت ہی یاں چشم و دل سے رہی
چلے بس تو واں جا کے کریے قیام

نہ دیکھے جہاں کوئی آنکھوں کی اور
نہ لیوے کوئی جس جگہ دل کا نام

جہاں میرؔ زیر و زبر ہو گیا
خراماں ہوا تھا وہ محشر خرام