EN हिंदी
مہربانی ہے عیادت کو جو آتے ہیں مگر (ردیف .. ا) | شیح شیری
mehrbani hai ayaadat ko jo aate hain magar

غزل

مہربانی ہے عیادت کو جو آتے ہیں مگر (ردیف .. ا)

اکبر الہ آبادی

;

مہربانی ہے عیادت کو جو آتے ہیں مگر
کس طرح ان سے ہمارا حال دیکھا جائے گا

دفتر دنیا الٹ جائے گا باطل یک قلم
ذرہ ذرہ سب کا اصلی حال دیکھا جائے گا

آفیشل اعمال نامہ کی نہ ہوگی کچھ سند
حشر میں تو نامۂ اعمال دیکھا جائے گا

بچ رہے طاعون سے تو اہل غفلت بول اٹھے
اب تو مہلت ہے پھر اگلے سال دیکھا جائے گا

تہ کرو صاحب نسب نامی وہ وقت آیا ہے اب
بے اثر ہوگی شرافت مال دیکھا جائے گا

رکھ قدم ثابت نہ چھوڑ اکبرؔ صراط مستقیم
خیر چل جانے دے ان کی چال دیکھا جائے گا