EN हिंदी
کیا خبر تھی اک بلائے ناگہانی آئے گی | شیح شیری
kya KHabar thi ek bala-e-na-gahani aaegi

غزل

کیا خبر تھی اک بلائے ناگہانی آئے گی

اختر انصاری

;

کیا خبر تھی اک بلائے ناگہانی آئے گی
نامرادی کی نشانی یہ جوانی آئے گی

سب کہیں گے کون کرتا ہے ہمارے راز فاش
جب مرے لب پر محبت کی کہانی آئے گی

نامرادی سے کہو منہ پھیر لے اپنا ذرا
میری دنیا میں عروس کامرانی آئے گی

جب خزاں کی نذر ہو جائے گی دنیا سے شباب
یاد اخترؔ یہ ستم آرا جوانی آئے گی