EN हिंदी
کوئی اٹکا ہوا ہے پل شاید | شیح شیری
koi aTka hua hai pal shayad

غزل

کوئی اٹکا ہوا ہے پل شاید

گلزار

;

کوئی اٹکا ہوا ہے پل شاید
وقت میں پڑ گیا ہے بل شاید

لب پہ آئی مری غزل شاید
وہ اکیلے ہیں آج کل شاید

دل اگر ہے تو درد بھی ہوگا
اس کا کوئی نہیں ہے حل شاید

جانتے ہیں ثواب رحم و کرم
ان سے ہوتا نہیں عمل شاید

آ رہی ہے جو چاپ قدموں کی
کھل رہے ہیں کہیں کنول شاید

راکھ کو بھی کرید کر دیکھو
ابھی جلتا ہو کوئی پل شاید

چاند ڈوبے تو چاند ہی نکلے
آپ کے پاس ہوگا حل شاید