EN हिंदी
خواب میں رات ہم نے کیا دیکھا | شیح شیری
KHwab mein raat humne kya dekha

غزل

خواب میں رات ہم نے کیا دیکھا

ناصر کاظمی

;

خواب میں رات ہم نے کیا دیکھا
آنکھ کھلتے ہی چاند سا دیکھا

کیاریاں دھول سے اٹی پائیں
آشیانہ جلا ہوا دیکھا

فاختہ سرنگوں ببولوں میں
پھول کو پھول سے جدا دیکھا

اس نے منزل پہ لا کے چھوڑ دیا
عمر بھر جس کا راستا دیکھا

ہم نے موتی سمجھ کے چوم لیا
سنگ ریزہ جہاں پڑا دیکھا

کم نما ہم بھی ہیں مگر پیارے
کوئی تجھ سا نہ خود نما دیکھا