EN हिंदी
خشک کھیتی ہے مگر اس کو ہری کہتے ہیں | شیح شیری
KHushk kheti hai magar usko hari kahte hain

غزل

خشک کھیتی ہے مگر اس کو ہری کہتے ہیں

آل احمد سرور

;

خشک کھیتی ہے مگر اس کو ہری کہتے ہیں
کم نگاہی کو بھی وہ دیدہ وری کہتے ہیں

فکر روشن کو وہ شوریدہ سری کہتے ہیں
یعنی سورج کو چراغ سحری کہتے ہیں

جو ترے در سے اٹھا پھر وہ کہیں کا نہ رہا
اس کی قسمت میں رہی در بدری کہتے ہیں

کتنی بے رحم ہے فطرت انہیں معلوم نہیں
جو اسے کارگہ شیشہ گری کہتے ہیں

حسن کے باب میں اکبرؔ کی سند کافی ہے
ہم بھی ہر اک بت کمسن کو پری کہتے ہیں

روح سید پہ خدا جانے گزر جائے گی کیا
عام علی گڑھ میں ہوئی کم نظری کہتے ہیں