EN हिंदी
جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے | شیح شیری
justuju jis ki thi usko to na paya humne

غزل

جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے

شہریار

;

جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے
اس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے

سب کا احوال وہی ہے جو ہمارا ہے آج
یہ الگ بات کہ شکوہ کیا تنہا ہم نے

خود پشیمان ہوئے نے اسے شرمندہ کیا
عشق کی وضع کو کیا خوب نبھایا ہم نے

کون سا قہر یہ آنکھوں پہ ہوا ہے نازل
ایک مدت سے کوئی خواب نہ دیکھا ہم نے

عمر بھر سچ ہی کہا سچ کے سوا کچھ نہ کہا
اجر کیا اس کا ملے گا یہ نہ سوچا ہم نے