EN हिंदी
جو وہ مرے نہ رہے میں بھی کب کسی کا رہا | شیح شیری
jo wo mere na rahe main bhi kab kisi ka raha

غزل

جو وہ مرے نہ رہے میں بھی کب کسی کا رہا

کیفی اعظمی

;

جو وہ مرے نہ رہے میں بھی کب کسی کا رہا
بچھڑ کے ان سے سلیقہ نہ زندگی کا رہا

لبوں سے اڑ گیا جگنو کی طرح نام اس کا
سہارا اب مرے گھر میں نہ روشنی کا رہا

گزرنے کو تو ہزاروں ہی قافلے گزرے
زمیں پہ نقش قدم بس کسی کسی کا رہا