EN हिंदी
جب سے اس شہر بے مکان میں ہوں | شیح شیری
jab se is shahr-e-be-makan mein hun

غزل

جب سے اس شہر بے مکان میں ہوں

خورشید ربانی

;

جب سے اس شہر بے مکان میں ہوں
میں ترے اسم کی امان میں ہوں

گنبد شعر میں جو گونجتی ہے
میں اسی درد کی اذان میں ہوں

میں نے تنہائیوں کو پا لیا ہے
اس لیے خواب ہی کے دھیان میں ہوں

تتلیاں رنگ چنتی رہتی ہیں
اور میں خوشبوؤں کی کان میں ہوں

وحشتیں عشق اور مجبوری
کیا کسی خاص امتحان میں ہوں

خواہشیں سایہ سایہ بکھری ہیں
اور میں دھوپ کے مکان میں ہوں

میں ہوں پیکان درد اے خورشیدؔ
اور اک یاد کی کمان میں ہوں