اس شہر میں کہیں پہ ہمارا مکاں بھی ہو
بازار ہے تو ہم پہ کبھی مہرباں بھی ہو
جاگیں تو آس پاس کنارا دکھائی دے
دریا ہو پر سکون کھلا بادباں بھی ہو
اک دوست ایسا ہو کہ مری بات بات کو
سچ مانتا ہو اور ذرا بد گماں بھی ہو
رستے میں ایک پیڑ ہو تنہا کھڑا ہوا
اور اس کی ایک شاخ پہ اک آشیاں بھی ہو
اس سے ملے زمانہ ہوا لیکن آج بھی
دل سے دعا نکلتی ہے خوش ہو جہاں بھی ہو
ہم اس جگہ چلے ہیں جہاں یہ زمیں نہیں
اچھا ہو گر وہاں پہ نیا آسماں بھی ہو
غزل
اس شہر میں کہیں پہ ہمارا مکاں بھی ہو
محمد علوی