EN हिंदी
اک اک قدم فریب تمنا سے بچ کے چل | شیح شیری
ek ik qadam fareb-e-tamanna se bach ke chal

غزل

اک اک قدم فریب تمنا سے بچ کے چل

شکیل بدایونی

;

اک اک قدم فریب تمنا سے بچ کے چل
دنیا کی آرزو ہے تو دنیا سے بچ کے چل

خود ڈھونڈ لے گا تجھ کو ترا منفرد مقام
راہ طلب میں نقش کف پا سے بچ کے چل

باقی ہے میرے دل میں ابھی عظمت وجود
قطرے سے کہہ رہا ہوں کہ دریا سے بچ کے چل

ملتی نہیں ہے راہ سکوں خوف و یاس میں
گلشن کی جستجو ہے تو صحرا سے بچ کے چل

منہ جادۂ وفا سے نہ موڑ اے وفا شعار
لیکن حدود چشم تماشا سے بچ کے چل

کتنی حسیں ہیں ان کے ستم کی مسرتیں
شکر کرم کی زحمت بے جا سے بچ کے چل

لمحے اداس اداس فضائیں گھٹی گھٹی
دنیا اگر یہی ہے تو دنیا سے بچ کے چل

اپنے ادب پہ ناز ہے تجھ کو اگر شکیلؔ
مغرب زدہ ادیب کی دنیا سے بچ کے چل