ہر نئی رت میں نیا ہوتا ہے منظر میرا
ایک پیکر میں کہاں قید ہے پیکر میرا
میں کہاں جاؤں کہ پہچان سکے کوئی مجھے
اجنبی مان کے چلتا ہے مجھے گھر میرا
جیسے دشمن ہی نہیں کوئی مرا اپنے سوا
لوٹ آتا ہے مری سمت ہی پتھر میرا
جو بھی آتا ہے وہی دل میں سما جاتا ہے
کتنے دریاؤں کا پیاسا ہے سمندر میرا
تو وہ مہتاب تکیں راہ اجالے تیری
میں وہ سورج کہ اندھیرا ہے مقدر میرا
غزل
ہر نئی رت میں نیا ہوتا ہے منظر میرا
بشر نواز