ہمارے شوق کی یہ انتہا تھی
قدم رکھا کہ منزل راستا تھی
بچھڑ کے ڈار سے بن بن پھرا وہ
ہرن کو اپنی کستوری سزا تھی
کبھی جو خواب تھا وہ پا لیا ہے
مگر جو کھو گئی وہ چیز کیا تھی
میں بچپن میں کھلونے توڑتا تھا
مرے انجام کی وہ ابتدا تھی
محبت مر گئی مجھ کو بھی غم ہے
مرے اچھے دنوں کی آشنا تھی
جسے چھو لوں میں وہ ہو جائے سونا
تجھے دیکھا تو جانا بد دعا تھی
مریض خواب کو تو اب شفا ہے
مگر دنیا بڑی کڑوی دوا تھی
غزل
ہمارے شوق کی یہ انتہا تھی
جاوید اختر