EN हिंदी
ہم نفسو اجڑ گئیں مہر و وفا کی بستیاں (ردیف .. ا) | شیح شیری
ham-nafaso ujaD gain mehr-o-wafa ki bastiyan

غزل

ہم نفسو اجڑ گئیں مہر و وفا کی بستیاں (ردیف .. ا)

عبد المجید سالک

;

ہم نفسو اجڑ گئیں مہر و وفا کی بستیاں
پوچھ رہے ہیں اہل مہر و وفا کو کیا ہوا

عشق ہے بے گذار کیوں حسن ہے بے نیاز کیوں
میری وفا کہاں گئی ان کی جفا کو کیا ہوا

یہ تو بجا کہ اب وہ کیف جام شراب میں نہیں
ساقی مے کے غمزۂ ہوش ربا کو کیا ہوا

اب نہیں جنت مشام کوچہ یار کی شمیم
نکہت زلف کیا ہوئی باد صبا کو کیا ہوا

تھم گیا دورۂ حیات رک گئی نبض کائنات
عشق و جنوں کی گرمئ ہمہمہ زا کو کیا ہوا

دشت جنوں میں ہو گئی منزل یار بے سراغ
قافلہ کس طرف گیا بانگ درا کو کیا ہوا

نالۂ شب ہے نارسا آہ سحر ہے بے اثر
میرا خدا کہاں گیا میرے خدا کو کیا ہوا