EN हिंदी
ہاں میاں سچ ہے تمہاری تو بلا ہی جانے | شیح شیری
han miyan sach hai tumhaari to bala hi jaane

غزل

ہاں میاں سچ ہے تمہاری تو بلا ہی جانے

بقا اللہ بقاؔ

;

ہاں میاں سچ ہے تمہاری تو بلا ہی جانے
جو گزرتی ہے مرے دل پہ خدا ہی جانے

دل سے نکلے کہیں پا بوسیٔ قاتل کی ہوس
کاش وہ خوں کو مرے رنگ حنا ہی جانے

دل کی واشد پہ عبث آہ نے کھینچی تکلیف
کھولنے عقدے تو غنچوں کے صبا ہی جانے

روز و شب نزع میں ہے عاشق چشم و لب یار
نہ تو جینا ہی وہ سمجھے نہ فنا ہی جانے

ہم تو نت دور سے خمیازہ کش حسرت ہیں
لذت بوس و کنار اس کی حیا ہی جانے

تیرے بیمار کو کیا ہووے شفا جس کے طبیب
نہ تو کچھ درد کو سمجھے نہ دوا ہی جانے

پوچھ اس دل سے جو ہے کاٹ ترے ابرو کا
جوہر برش شمشیر سپاہی جانے

اپنی مرضی تو یہ ہے بندۂ بت ہو رہیے
آگے مرضی ہے خدا کی سو خدا ہی جانے

طور پر اپنے سخن کون برا کہتا ہے
پر یہ انداز جو پوچھو تو بقاؔ ہی جانے