EN हिंदी
گزرو نہ اس طرح کہ تماشا نہیں ہوں میں | شیح شیری
guzro na is tarah ki tamasha nahin hun main

غزل

گزرو نہ اس طرح کہ تماشا نہیں ہوں میں

عبید اللہ علیم

;

گزرو نہ اس طرح کہ تماشا نہیں ہوں میں
سمجھو کہ اب ہوں اور دوبارہ نہیں ہوں میں

اک طبع رنگ رنگ تھی سو نذر گل ہوئی
اب یہ کہ اپنے ساتھ بھی رہتا نہیں ہوں میں

تم نے بھی میرے ساتھ اٹھائے ہیں دکھ بہت
خوش ہوں کہ راہ شوق میں تنہا نہیں ہوں میں

پیچھے نہ بھاگ وقت کی اے نا شناس دھوپ
سایوں کے درمیان ہوں سایا نہیں ہوں میں

جو کچھ بھی ہوں میں اپنی ہی صورت میں ہوں علیمؔ
غالبؔ نہیں ہوں میرؔ و یگانہؔ نہیں ہوں میں