EN हिंदी
دروازہ وا کر کے روز نکلتا تھا | شیح شیری
darwaza wa kar ke roz nikalta tha

غزل

دروازہ وا کر کے روز نکلتا تھا

عنبر بہرائچی

;

دروازہ وا کر کے روز نکلتا تھا
صرف وہی اپنے گھر کا سرمایہ تھا

کھڑے ہوئے تھے پیڑ جڑوں سے کٹ کر بھی
تیز ہوا کا جھونکا آنے والا تھا

اسی ندی میں اس کے بچے ڈوب گئے
اسی ندی کا پانی اس کا پینا تھا

سبز قبائیں روز لٹاتا تھا لیکن
خود اس کے تن پر بوسیدہ کپڑا تھا

باہر سارے میداں جیت چکا تھا وہ
گھر لوٹا تو پل بھر میں ہی ٹوٹا تھا

بت کی قیمت آنک رہا تھا ویسے وہ
مندر میں تو پوجا کرنے آیا تھا

چیخ پڑیں ساری دیواریں عنبرؔ جی
میں سب سے چھپ کر کمرے میں بیٹھا تھا