داغ دنیا نے دیے زخم زمانے سے ملے
ہم کو تحفے یہ تمہیں دوست بنانے سے ملے
ہم ترستے ہی ترستے ہی ترستے ہی رہے
وہ فلانے سے فلانے سے فلانے سے ملے
خود سے مل جاتے تو چاہت کا بھرم رہ جاتا
کیا ملے آپ جو لوگوں کے ملانے سے ملے
ماں کی آغوش میں کل موت کی آغوش میں آج
ہم کو دنیا میں یہ دو وقت سہانے سے ملے
کبھی لکھوانے گئے خط کبھی پڑھوانے گئے
ہم حسینوں سے اسی حیلے بہانے سے ملے
اک نیا زخم ملا ایک نئی عمر ملی
جب کسی شہر میں کچھ یار پرانے سے ملے
ایک ہم ہی نہیں پھرتے ہیں لیے قصۂ غم
ان کے خاموش لبوں پر بھی فسانے سے ملے
کیسے مانیں کہ انہیں بھول گیا تو اے کیفؔ
ان کے خط آج ہمیں تیرے سرہانے سے ملے
غزل
داغ دنیا نے دیے زخم زمانے سے ملے
کیف بھوپالی