EN हिंदी
بجا کہ پابند کوچۂ ناز ہم ہوئے تھے | شیح شیری
baja ki paband-e-kucha-e-naz hum hue the

غزل

بجا کہ پابند کوچۂ ناز ہم ہوئے تھے

عبد الاحد ساز

;

بجا کہ پابند کوچۂ ناز ہم ہوئے تھے
یہیں سے پر لے کے محو پرواز ہم ہوئے تھے

سخن کا آغاز پہلے بوسے کی تازگی تھا
ازل ربا ساعتوں کے ہم راز ہم ہوئے تھے

جہاں سے معدوم تھی خوش آئندگی سفر کی
وہیں سے اک لمحۂ تگ و تاز ہم ہوئے تھے

یہاں جو اک گونج دائرے سے بنا رہی ہے
اسی خموشی میں سنگ آواز ہم ہوئے تھے

رواں دواں انکشاف در انکشاف تھے ہم
جو مڑ کے دیکھا تو صیغۂ راز ہم ہوئے تھے

افق تھا روشن نہ مرتعش پانیوں پہ کرنیں
غلط جزیروں پہ لنگر انداز ہم ہوئے تھے

کریدتے پھر رہے ہیں اب ریت ساحلوں کی
وہی جو غوطہ زن یم راز ہم ہوئے تھے

جمود کا ایک دور گزرا تھا فکر و فن پر
طویل عرصے کے بعد پھر سازؔ ہم ہوئے تھے