EN हिंदी
آہ جو دل سے نکالی جائے گی | شیح شیری
aah jo dil se nikali jaegi

غزل

آہ جو دل سے نکالی جائے گی

اکبر الہ آبادی

;

آہ جو دل سے نکالی جائے گی
کیا سمجھتے ہو کہ خالی جائے گی

اس نزاکت پر یہ شمشیر جفا
آپ سے کیوں کر سنبھالی جائے گی

کیا غم دنیا کا ڈر مجھ رند کو
اور اک بوتل چڑھا لی جائے گی

شیخ کی دعوت میں مے کا کام کیا
احتیاطاً کچھ منگا لی جائے گی

یاد ابرو میں ہے اکبرؔ محو یوں
کب تری یہ کج خیالی جائے گی