EN हिंदी
آغوش ستم میں ہی چھپا لے کوئی آ کر | شیح شیری
aaghosh-e-sitam mein hi chhupa le koi aa kar

غزل

آغوش ستم میں ہی چھپا لے کوئی آ کر

عدیم ہاشمی

;

آغوش ستم میں ہی چھپا لے کوئی آ کر
تنہا تو تڑپنے سے بچا لے کوئی آ کر

صحرا میں اگا ہوں کہ مری چھاؤں کوئی پائے
ہلتا ہوں کہ پتوں کی ہوا لے کوئی آ کر

بکتا تو نہیں ہوں نہ مرے دام بہت ہیں
رستے میں پڑا ہوں کہ اٹھا لے کوئی آ کر

کشتی ہوں مجھے کوئی کنارے سے تو کھولے
طوفاں کے ہی کر جائے حوالے کوئی آ کر

جب کھینچ لیا ہے مجھے میدان ستم میں
دل کھول کے حسرت بھی نکالے کوئی آ کر

دو چار خراشوں سے ہو تسکین جفا کیا
شیشہ ہوں تو پتھر پہ اچھالے کوئی آ کر

میرے کسی احسان کا بدلہ نہ چکائے
اپنی ہی وفاؤں کا صلہ لے کوئی آ کر