EN हिंदी
راسٹا شیاری | شیح شیری

راسٹا

12 شیر

تو کبھی اس شہر سے ہو کر گزر
راستوں کے جال میں الجھا ہوں میں

آشفتہ چنگیزی




جہاں تک پاؤں میرے جا سکے ہیں
وہیں تک راستہ ٹھہرا ہوا ہے

عبدالصمد تپشؔ




کٹی ہوئی ہے زمیں کوہ سے سمندر تک
ملا ہے گھاؤ یہ دریا کو راستہ دے کر

عدیم ہاشمی




کیوں چلتے چلتے رک گئے ویران راستو
تنہا ہوں آج میں ذرا گھر تک تو ساتھ دو

عادل منصوری




جو رکاوٹ تھی ہماری راہ کی
راستہ نکلا اسی دیوار سے

اظہر عباس




وہ کیا منزل جہاں سے راستے آگے نکل جائیں
سو اب پھر اک سفر کا سلسلہ کرنا پڑے گا

افتخار عارف




ہم آپ کو دیکھتے تھے پہلے
اب آپ کی راہ دیکھتے ہیں

کیفی حیدرآبادی