EN हिंदी
نشا شیاری | شیح شیری

نشا

21 شیر

تا مرگ مجھ سے ترک نہ ہوگی کبھی نماز
پر نشۂ شراب نے مجبور کر دیا

آغا اکبرآبادی




ناصح خطا معاف سنیں کیا بہار میں
ہم اختیار میں ہیں نہ دل اختیار میں

امیر اللہ تسلیم




عشق کرتا ہے تو پھر عشق کی توہین نہ کر
یا تو بے ہوش نہ ہو ہو تو نہ پھر ہوش میں آ

آنند نرائن ملا




خشک باتوں میں کہاں ہے شیخ کیف زندگی
وہ تو پی کر ہی ملے گا جو مزا پینے میں ہے

o priest where is the pleasure in this world when dry and sere
tis only when one drinks will then the joy truly appea

عرش ملسیانی




عالم سے بے خبر بھی ہوں عالم میں بھی ہوں میں
ساقی نے اس مقام کو آساں بنا دیا

اصغر گونڈوی




نشہ ٹوٹا نہیں ہے مار کھا کر
کہ ہم نے پی ہے کم کھائی بہت ہے

عزیز احمد




نہ تم ہوش میں ہو نہ ہم ہوش میں ہیں
چلو مے کدہ میں وہیں بات ہوگی

neither are you in your senses nor am I in mine
let us now go to the tavern and talk while we have wine

بشیر بدر