EN हिंदी
ہا شیاری | شیح شیری

ہا

20 شیر

کیوں نہ اپنی خوبیٔ قسمت پہ اتراتی ہوا
پھول جیسے اک بدن کو چھو کر آئی تھی ہوا

عابد مناوری




اگرچہ زور ہواؤں نے ڈال رکھا ہے
مگر چراغ نے لو کو سنبھال رکھا ہے

احمد فراز




کون طاقوں پہ رہا کون سر راہ گزر
شہر کے سارے چراغوں کو ہوا جانتی ہے

احمد فراز




ہوا سہلا رہی ہے اس کے تن کو
وہ شعلہ اب شرارے دے رہا ہے

اکبر حمیدی




ذرا ہٹے تو وہ محور سے ٹوٹ کر ہی رہے
ہوا نے نوچا انہیں یوں کہ بس بکھر ہی رہے

علی اکبر عباس




ہوا ہو ایسی کہ ہندوستاں سے اے اقبالؔ
اڑا کے مجھ کو غبار رہ حجاز کرے

علامہ اقبال




ہوا درختوں سے کہتی ہے دکھ کے لہجے میں
ابھی مجھے کئی صحراؤں سے گزرنا ہے

اسعد بدایونی