عشق کی راہ میں یوں حد سے گزر مت جانا
ہوں گھڑے کچے تو دریا میں اتر مت جانا
والی آسی
آج تک جو بھی ہوا اس کو بھلا دینا ہے
آج سے طے ہے کہ دشمن کو دعا دینا ہے
والی آسی
اس طرح روز ہم اک خط اسے لکھ دیتے ہیں
کہ نہ کاغذ نہ سیاہی نہ قلم ہوتا ہے
والی آسی
ہمیں تیرے سوا اس دنیا میں کسی اور سے کیا لینا دینا
ہم سب کو جواب نہیں دیتے ہم سب سے سوال نہیں کرتے
والی آسی
ہمیں انجام بھی معلوم ہے لیکن نہ جانے کیوں
چراغوں کو ہواؤں سے بچانا چاہتے ہیں ہم
والی آسی
ہمارے شہر میں اب ہر طرف وحشت برستی ہے
سو اب جنگل میں اپنا گھر بنانا چاہتے ہیں ہم
والی آسی
ہم خون کی قسطیں تو کئی دے چکے لیکن
اے خاک وطن قرض ادا کیوں نہیں ہوتا
والی آسی
ہم ہار گئے تم جیت گئے ہم نے کھویا تم نے پایا
ان چھوٹی چھوٹی باتوں کا ہم کوئی خیال نہیں کرتے
والی آسی
غم کے رشتوں کو کبھی توڑ نہ دینا والیؔ
غم خیال دل نا شاد بہت کرتا ہے
والی آسی