EN हिंदी
سالم سلیم شیاری | شیح شیری

سالم سلیم شیر

22 شیر

بجھا رکھے ہیں یہ کس نے سبھی چراغ ہوس
ذرا سا جھانک کے دیکھیں کہیں ہوا ہی نہ ہو

سالم سلیم




بھرے بازار میں بیٹھا ہوں لیے جنس وجود
شرط یہ ہے کہ مری خاک کی قیمت دی جائے

سالم سلیم




اپنے جیسی کوئی تصویر بنانی تھی مجھے
مرے اندر سے سبھی رنگ تمہارے نکلے

سالم سلیم




اب اس کے بعد کچھ بھی نہیں اختیار میں
وہ جبر تھا کہ خود کو خدا کر چکے ہیں ہم

سالم سلیم