جز ہمارے کون آخر دیکھتا اس کام کو
روح کے اندر کوئی کار بدن ہوتا ہوا
سالم سلیم
آ رہا ہوگا وہ دامن سے ہوا باندھے ہوئے
آج خوشبو کو پریشان کیا جائے گا
سالم سلیم
اک برف سی جمی رہے دیوار و بام پر
اک آگ میرے کمرے کے اندر لگی رہے
سالم سلیم
ہجر کے دن تو ہوئے ختم بڑی دھوم کے ساتھ
وصل کی رات ہے کیوں مرثیہ خوانی کریں ہم
سالم سلیم
چٹخ کے ٹوٹ گئی ہے تو بن گئی آواز
جو میرے سینہ میں اک روز خامشی ہوئی تھی
سالم سلیم
چراغ عشق بدن سے لگا تھا کچھ ایسا
میں بجھ کے رہ گیا اس کو ہوا بنانے میں
سالم سلیم
بجھا رکھے ہیں یہ کس نے سبھی چراغ ہوس
ذرا سا جھانک کے دیکھیں کہیں ہوا ہی نہ ہو
سالم سلیم
بھرے بازار میں بیٹھا ہوں لیے جنس وجود
شرط یہ ہے کہ مری خاک کی قیمت دی جائے
سالم سلیم
اپنے جیسی کوئی تصویر بنانی تھی مجھے
مرے اندر سے سبھی رنگ تمہارے نکلے
سالم سلیم