ہوا ہے سخت مشکل دفن ہونا تیرے وحشی کا
جہاں پر قبر کھودی جاتی ہے پتھر نکلتے ہیں
رشید لکھنوی
اے گل اندام یہ ہے فصل جوانی کا عروج
حسن کا رنگ ٹپکنے کو ہے رخساروں سے
رشید لکھنوی
ہماری زندگی و موت کی ہو تم رونق
چراغ بزم بھی ہو اور چراغ فن بھی ہو
رشید لکھنوی
ہنس ہنس کے کہہ رہا ہے جلانا ثواب ہے
ظالم یہ میرا دل ہے چراغ حرم نہیں
رشید لکھنوی
گئے تھے حضرت زاہد تو زرد تھا چہرہ
شراب خانے سے نکلے تو سرخ رو نکلے
رشید لکھنوی
دونوں آنکھیں دل جگر ہیں عشق ہونے میں شریک
یہ تو سب اچھے رہیں گے مجھ پر الزام آئے گا
رشید لکھنوی
دل ہے شوق وصل میں مضطر نظر مشتاق دید
جو ہے مشغول اپنی اپنی سعئ لا حاصل میں ہے
رشید لکھنوی
دیکھیے لازم و ملزوم اسے کہتے ہیں
دل ہے داغوں کے لیے داغ مرے دل کے لیے
رشید لکھنوی
بتوں کے دل میں ہماری کچھ اب ہوئی ہے جگہ
خدا نے رحم کیا ورنہ مر گئے ہوتے
رشید لکھنوی