EN हिंदी
قابل اجمیری شیاری | شیح شیری

قابل اجمیری شیر

30 شیر

آج جنوں کے ڈھنگ نئے ہیں
تیری گلی بھی چھوٹ نہ جائے

قابل اجمیری




آج قابلؔ مے کدے میں انقلاب آنے کو ہے
اہل دل اندیشۂ سود و زیاں تک آ گئے

قابل اجمیری




اب یہ عالم ہے کہ غم کی بھی خبر ہوتی نہیں
اشک بہہ جاتے ہیں لیکن آنکھ تر ہوتی نہیں

قابل اجمیری




ابھی تو تنقید ہو رہی ہے مرے مذاق جنوں پہ لیکن
تمہاری زلفوں کی برہمی کا سوال آیا تو کیا کرو گے

قابل اجمیری




بہت کام لینے ہیں درد جگر سے
کہیں زندگی کو قرار آ نہ جائے

قابل اجمیری




دن چھپا اور غم کے سائے ڈھلے
آرزو کے نئے چراغ جلے

قابل اجمیری




غم جہاں کے تقاضے شدید ہیں ورنہ
جنون کوچۂ دلدار ہم بھی رکھتے ہیں

قابل اجمیری




حیرتوں کے سلسلے سوز نہاں تک آ گئے
ہم نظر تک چاہتے تھے تم تو جاں تک آ گئے

قابل اجمیری




ہم بدلتے ہیں رخ ہواؤں کا
آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے

قابل اجمیری